زخم تم نے جو دئے اس کی دوا کون کرے

زخم تم نے جو دئے اس کی دوا کون کرے
راس تنہائی کے آنے کی دعا کون کرے


اپنی غلطی کا نہ احساس کبھی ہو جس کو
ایسے نادان سے تکرار بھلا کون کرے


ہیں جو گمراہ رقیبوں کی کسی سازش میں
ان کی دل سوز تباہی کا پتا کون کرے


خون کے ساتھ تجارت جو کرے گردوں کی
اب یقیں ایسے مسیحا کا بھلا کون کرے


گھر بساتے ہی جو ماں باپ کو کہتے ہیں غلط
ایسی اولاد سے امید وفا کون کرے


قتل و خوں جھوٹ دغا عام ہو جس بستی میں
بات حق کی وہاں کہنے کی خطا کون کرے


وقت اب دیکھ کے ایوبؔ بغاوت کر لو
ظلم ظالم کا شب و روز سہا کون کرے