ان سے کیوں دل ملا نہیں معلوم
ان سے کیوں دل ملا نہیں معلوم
عشق کیوں کر ہوا نہیں معلوم
دوست بھی دشمنوں کے جیسے ہیں
کون ہے با وفا نہیں معلوم
جو اصولوں پہ جان دیتے تھے
کیوں ہوئے پر دغا نہیں معلوم
رہبری پر تھا جس کی ناز مجھے
کیوں ہے بھٹکا ہوا نہیں معلوم
دل کی باتیں سنا جو کرتے ہیں
کیا انہیں مدعا نہیں معلوم
کیوں مجھے ڈھونڈنے وہ نکلے ہیں
گزرا کیا حادثہ نہیں معلوم
ظلم جو کر رہے ہیں اپنوں پر
ہوں گے کس دن فنا نہیں معلوم
اپنے محسن کو قید کرتے ہیں
لیکن اس کی خطا نہیں معلوم
آج تک ظالموں کو اے ایوبؔ
صبر کی انتہا نہیں معلوم