محفل زیست میں دیکھے ہیں اندھیرے برسوں
محفل زیست میں دیکھے ہیں اندھیرے برسوں
تارے گن گن کے کئے ہم نے سویرے برسوں
رنج و غم عشق صنم تشنہ لبی نیم شبی
دل نازک کو یہ حالات تھے گھیرے برسوں
کیوں نہ ہو خوف زدہ لوگ نگہبانوں سے
لوٹتے آئے ہیں سب کو یہ لٹیرے برسوں
نام الفت ہی سے اب ہوتی ہے دل کو وحشت
ہم کو ڈستی رہی یہ شام سویرے برسوں
کوچۂ یار میں رسوائی نے رہنے نہ دیا
دشت و صحرا میں لگاتے رہے پھیرے برسوں
پارسائی کا سبق ہم کو دیا تھا جس نے
غیر کے گھر میں کئے اس نے بسیرے برسوں
اونچے محلوں میں انہیں چین نہ آیا ایوبؔ
چار تنکوں پہ کئے ہم نے بسیرے برسوں