خموشی کو کبھی گفتار کرنا
خموشی کو کبھی گفتار کرنا
غم و آلام کو دستار کرنا
کسی سے وصل کا وعدہ اگر ہو
نبھانے سے اسے انکار کرنا
دل و جاں سے جسے چاہا ہے تم نے
اسی کی زندگی دشوار کرنا
دئے تھے غم جسے تحفے میں تم نے
اب اس کا آخری دیدار کرنا
جو پل کر آستیں میں ڈس رہا ہو
اسی پر سب سے پہلے وار کرنا
تمنا ہے اگر محلوں کی تم کو
امیروں سے ہمیشہ پیار کرنا
جہاں پر نام کے رشتے ہوں ایوبؔ
اس آنگن میں کھڑی دیوار کرنا