تنہا سے رہ گئے ہیں شب انتظار میں
تنہا سے رہ گئے ہیں شب انتظار میں
ارماں مچل رہے ہیں دل بے قرار میں
وعدے پہ آپ آ نہ سکے اس کا غم نہیں
لیکن شگاف کیوں پڑا قول و قرار میں
مدھم ہوئی چراغ تمنا کی روشنی
شاید وہ اب نہ آئے گا سونے دیار میں
بربادیوں کا اپنی ہمیں کوئی غم نہیں
رسوائیاں تو آپ نے بھی پائیں پیار میں
یہ عشق خاکسار وہ حسن انا پسند
بگڑے کہیں نہ بات اسی خلفشار میں
کیسے سنائیں حال کسی درد مند کو
لب بند ہو گئے ہیں وفا کے حصار میں
ایوبؔ بے وفا سے امید وفا نہیں
دامن بچائے کانٹوں سے رکھے بہار میں