زخم مہکے ہیں گل رخوں کی طرح
زخم مہکے ہیں گل رخوں کی طرح
ہم بھی زندہ ہیں حسرتوں کی طرح
تم کو خوشبو بنا کے چھوڑیں گے
ہم میں بو باس ہے گلوں کی طرح
کتنے چہرے لگائے پھرتے ہیں
آج انسان راونوں کی طرح
روز آب حیات پیتا ہوں
روز مرتا ہوں میں گلوں کی طرح
جس کو پالا وہی تو ذہن ہم کو
ڈستا رہتا ہے ناگنوں کی طرح
تپتا رہتا ہوں ریت کے مانند
کوئی برسے تو بادلوں کی طرح
اب کہاں جائیں کس طرح جائیں
درد پھیلا ہے راستوں کی طرح
اس گرانی کے دور میں انجمؔ
اپنے سینے ہیں مقبروں کی طرح