تیری نگاہ ناز بڑی کارگر گئی
تیری نگاہ ناز بڑی کارگر گئی
میرے مذاق دید کو بیکار کر گئی
ہوگا ضرور پاس وفا ان کو ایک دن
بس اس خیال میں ہی جوانی گزر گئی
اپنے شکستہ حال کا ممکن نہ تھا علاج
تم نے نظر ملائی تو دنیا سنور گئی
یوں کٹ گئی خیال میں ان کے شب فراق
یہ بھی خبر بنیں کدھر آئی کدھر گئی
دیکھے تو کوئی جذب محبت کا یہ اثر
ہر پھر کے میرے دل پہ ہی ان کی نظر گئی
معمور ہے نگاہ میں اب ساری کائنات
تنویر کس کے حسن کی ہر سو نکھر گئی
دو گام بھی چلے نہیں تم راہ عشق میں
سختیٔ راہ تم کو تو بیزار کر گئی
انجمؔ کسی کی چشم کرم کا یہ فیض ہے
طوفان میں بھی گھر کے جو کشتی ابھر گئی