موسم گل ہے نقاب حسن اٹھ جانے کا نام
موسم گل ہے نقاب حسن اٹھ جانے کا نام
ہے نشاط جان و دل اس دور کے آنے کا نام
تنگ ذہنوں میں ہے ماتم گردش ایام کا
محفل ہستی کو دے رکھا ہے غم خانے کا نام
جب کبھی چھڑتا ہے ذکر رسم و راہ عاشقی
لوگ لیتے ہیں ادب سے تیرے دیوانے کا نام
ان کی یاد ان کا تصور ان کا غم ان کی خوشی
زندگی ہے میری بس ان میں ہی کھو جانے کا نام
میں اگر ناکام ہوں ناکام رہنے دیجئے
کیا پڑی ہے آپ کو لیں رحم فرمانے کا نام
ہر برائی مصلحت کے نام سے ہے اب ردا
دے چکے ہیں لوگ مقتل کو صنم خانے کا نام
اس محبت میں ہیں انجمؔ سینکڑوں دشواریاں
سوچ کر لینے کسی ظالم کو اپنانے کا نام