سکون و صبر لٹا ہوش کا خزانہ گیا
سکون و صبر لٹا ہوش کا خزانہ گیا
تمہیں بتاؤ خدارا کہ میرا کیا نہ گیا
گرائی برق نظر سوز بارہا لیکن
مذاق دید ہمارا شکست کھا نہ گیا
خدا کی ذات پہ انساں نے کر دئے حملے
فریب عقل سے جب آپ میں رہا نہ گیا
ہمارے ذوق نظر نے تو خوب کام کیا
چھپے ہزار طرح وہ مگر چھپا نہ گیا
تمام عمر جلایا چراغ دل میں نے
شب سیاہ کا لیکن یہ سلسلہ نہ گیا
خلوص دل میں ہی انجمؔ کمی رہی ہوگی
کہ وہ قریب رہے پھر بھی فاصلہ نہ گیا