زخم دل کا ہو مداوا مجھے منظور نہیں
زخم دل کا ہو مداوا مجھے منظور نہیں
زیست کا میری سہارا ہے یہ ناسور نہیں
مانگتا ہوں میں تجھے تجھ سے نیا ہے یہ سوال
بات رد کرنا گدا کی تیرا دستور نہیں
آپ آ جائیں دم نزع مجھے لینے کو
آپ کی شان کرم سے تو یہ کچھ دور نہیں
عیش کے سب ہی ہیں سامان میسر لیکن
میرا ساقی نہیں وہ بادۂ مخمور نہیں
آرزو دید کی عرصے سے دوبارہ ہے مجھے
ایک ہی بار میں جل جائے یہ وہ طور نہیں
آپ کا جور و ستم اور زیادہ ہو سدا
ہو افاقہ یہ وفاؔ کو میری منظور نہیں