زخم بھر جائیں گے لیکن اک نشاں رہ جائے گا
زخم بھر جائیں گے لیکن اک نشاں رہ جائے گا
کچھ بھی ہو پہلے کی طرح دل کہاں رہ جائے گا
تم چلے جاؤ گے لیکن میرے سینے میں سدا
راکھ میں لپٹا ہوا آتش فشاں رہ جائے گا
آنکھ سے میگھا برس کر آپ ہی تھم جائے گی
گھٹ کے سینے میں کچھ آہوں کا دھواں رہ جائے گا
کھینچ کر روح وقت رخصت ساتھ تم لے جاؤ گے
قید میں سانسوں کی قلب ناتواں رہ جائے گا
آبلہ پائی کا حاصل نا مرادی گر رہا
آرزوؤں کا بھٹک کر کارواں رہ جائے گا
قبر پر شمع جلا کر تو مری رخصت ہوا
حشر تک رونے کو مجھ پہ آسماں رہ جائے گا
بجلیوں کی نذر ہو جائے گا دل کا آشیاں
سوچتا ہوں کیا وہ پھر بے خانماں رہ جائے گا
لوٹ کر گل کا تبسم گر ہوئی رخصت خزاں
زیباؔ عبرت کے لئے پھر گلستاں رہ جائے گا