بعد ترے حالات نے کتنے موڑ لیے

بعد ترے حالات نے کتنے موڑ لیے
ہم نے ویرانوں سے رشتے جوڑ لیے


خواب سجا کر پتھر کی الماری میں
ہم نے سارے کانچ کے برتن توڑ لیے


گلشن بھی ویرانے جیسا لگتا ہے
پھول اس نے کھلتے ہی سارے توڑ لیے


ڈھ گئیں ضبط کی ساری کچی دیواریں
آنکھ کے گوہر ہاتھ سے مل کر پھوڑ لیے


ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سب بے حس لوگ
ہم نے زیباؔ جی تنہا جھنجھوڑ لیے