حقیقتوں کی طلب ہے ابھی مجاز میں ہوں
حقیقتوں کی طلب ہے ابھی مجاز میں ہوں
زمانہ بیت گیا حالت نماز میں ہوں
میری تلاش ادھوری کہیں نہ رہ جائے
کبھی نشیب میں ہوں اور کبھی فراز میں ہوں
گداز درد کا فطرت میں لے کے آیا ہوں
کسی کے سوز میں ہوں اور کسی کے ساز میں ہوں
نظر اٹھا کے ذرا دیکھ مجھ کو بھی ساقی
سوالیوں کی طرح تیری بزم ناز میں ہوں
ارم سے گرچہ نکالا گیا میں انساں ہوں
میں اب بھی تیرے فرشتوں کی ساز باز میں ہوں
کسی نے کھوجا نہیں مجھ کو اس طرح زیباؔ
خودی کے سر میں ہوں بے خودی کے راز میں ہوں