منجدھار میں لا کر نیا بھی مانجھی کو ڈبوتے دیکھا ہے

منجدھار میں لا کر نیا بھی مانجھی کو ڈبوتے دیکھا ہے
لمحوں کے دریدہ دامن میں برسوں کو سموتے دیکھا ہے


کچھ لوگ جہاں میں ایسے ہیں شیشے کا جگر جو رکھتے ہیں
پتھر کے گھروں میں رہتے ہیں انہیں کس نے روتے دیکھا ہے


کچھ آنکھیں ایسی ہوتی ہیں جو ہر دم ہنستی رہتی ہیں
بھرپور تبسم کے پیچھے دل خون بھی ہوتے دیکھا ہے


زیباؔ ہوئے ہم تو دیوانے رونے کے علاوہ راتوں کو
بے نور ستارو تم ہی کہو کبھی ہم کو سوتے دیکھا ہے