کہاں کھوئی تھی تیری راہ گزر لکھی ہے

کہاں کھوئی تھی تیری راہ گزر لکھی ہے
دل کے اوراق پہ روداد سفر لکھی ہے


کسی گوشے میں دھری اب بھی ہے الماری میں
تیرے بارے میں وہ اک چٹھی جو گھر لکھی ہے


رات بھر کرتے کے گھیرے پہ گرا خون جگر
داستاں پھر سے تری دیدۂ تر لکھی ہے


چاندنی دھوکا تو چہرہ ہے فقط حسن نظر
لغت درد میں تقدیر قمر لکھی ہے


ہم قناعت کے بھکاری ہیں توکل کے فقیر
ہے بہت تیرے کرم کی جو نظر لکھی ہے


اس کے گل ریز تبسم سے شروع ہو زیباؔ
اپنی قسمت میں کہاں ایسی سحر لکھی ہے