زباں کے ساتھ یہاں ذائقہ بھی رکھا ہے

زباں کے ساتھ یہاں ذائقہ بھی رکھا ہے
تمہارا ذکر تمہارا پتا بھی رکھا ہے


سجا کے دھوپ کڑی آج گھر سے نکلے ہیں
کسی کے سائے کو زیر قبا بھی رکھا ہے


دھمال کے لیے کیا کم زمین پڑتی ہے
جو آسمان کو سر پر اٹھا بھی رکھا ہے


کسی طرح سے بھی رونق بڑھے مرے گھر کی
بجھا ہوا ہی سہی اک دیا بھی رکھا ہے


مرا شعار خیانت نہیں امانت ہے
ملا ہے زخم جو اس کو ہرا بھی رکھا ہے


صدائے دل زدگاں آئے اس طرف شاید
دریچہ ایک مکاں کا کھلا بھی رکھا ہے