زبان بند رکھیں اور تم سے ڈر جائیں
زبان بند رکھیں اور تم سے ڈر جائیں
یہ بات ذہن میں آنے سے قبل مر جائیں
معافی مانگنے جائیں خدا کے گھر لیکن
خطا حرم میں ہوئی ہو تو پھر کدھر جائیں
میں اب بدل نہیں سکتا مزاج جینے کا
اب آپ چاہیں تو ٹھہریں وگرنہ گھر جائیں
بہار نو میں نئے گل تو کھل رہے ہیں مگر
جھڑی ہیں شاخ سے جو پتیاں کدھر جائیں
وہ جان بوجھ کے ناخن بڑھا کے رکھتے ہیں
یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ زخم بھر جائیں
ملا ہے تخت جو جمہوریت میں بانر کو
تو ان سے کیا سبھی جنگل کے شیر ڈر جائیں