ذات جب بھی اڑان تک پہنچی
ذات جب بھی اڑان تک پہنچی
وسعت لا مکان تک پہنچی
جب حقیقت گمان تک پہنچی
اک نئے امتحان تک پہنچی
بات پھیلائی تھی جو دشمن نے
دیکھو وہ مہربان تک پہنچی
کشتیاں سب جلا کے آئی تھی
جب وہ تیرے مکان تک پہنچی
اک ترا نام کیا لیا ہم نے
بات تیر و کمان تک پہنچی
رازداں سے کہی تھی چپکے سے
بات سارے جہان تک پہنچی
اب ترے انتظار میں اے دوست
مسکراہٹ تھکان تک پہنچی
اوڑھ کر ضبط کی ردا پیہم
حوصلے کی چٹان تک پہنچی
آخر شب دعا مسرتؔ کی
جا کے پھر آسمان تک پہنچی