ویران سا اب ہوں جو میں ایسا تو نہیں تھا

ویران سا اب ہوں جو میں ایسا تو نہیں تھا
ہوتا تھا سمندر کبھی صحرا تو نہیں تھا


چہرے پہ رقم تھا جو وہ پڑھ ہی نہیں پایا
سب جانتا تھا اتنا بھی سادہ تو نہیں تھا


آنگن میں مرے دل کے چلی آئی تھی کل شام
تھی یاد تمہاری کوئی جھونکا تو نہیں تھا


چپ چاپ تصور میں چلے آتے کسی روز
سوچوں پہ میری جاں کوئی پہرہ تو نہیں تھا


ہم درد کا افسانہ سناتے اسے کیوں کر
ظاہر میں جو اپنا تھا پر اپنا تو نہیں تھا


سب چل دئے موجوں کے حوالے اسے کر کے
مانا کہ بھنور میں تھا وہ ڈوبا تو نہیں تھا


وہ جس کو تھا سینے کا ہر اک زخم دکھایا
باتوں پہ مری اس کو بھروسہ تو نہیں تھا


کر کے مجھے برباد گیا ہے وہ ستم گر
گلشن یوں ہی دل کا مرے اجڑا تو نہیں تھا


کیوں روتا ہے اب ہجر میں تیرے وہ مسرتؔ
جاتے ہوئے اس نے تجھے روکا تو نہیں تھا