مل کے اک بار اسے یاد نہیں ہونے کے

مل کے اک بار اسے یاد نہیں ہونے کے
دل کے اجڑے نگر آباد نہیں ہونے کے


اب نئے ظلم تو ایجاد نہیں ہونے کے
صاحبا ہم کوئی فریاد نہیں ہونے کے


سچے عشاق تو ناپید ہوئے دنیا میں
اب کوئی شیریں و فرہاد نہیں ہونے کے


دل میں ٹھانی ہے بھلا دیں تمہیں دھیرے دھیرے
اور اس عشق میں برباد نہیں ہونے کے


ایک وعدے نے یوں پابستہ کیا ہے ہم کو
اب کسی طور بھی آزاد نہیں ہونے کے


ہم نے ہر حال میں جینے کی قسم کھائی ہے
ہم کبھی زیست میں ناشاد نہیں ہونے کے


ایک کم ظرف سے کیا ظرف کی امید کریں
ہیں جو بونے کبھی شمشاد نہیں ہونے کے