گزری تھی ایک بار جو دل کی گلی سے میں
گزری تھی ایک بار جو دل کی گلی سے میں
دو چار آج بھی ہوں اسی بے کلی سے میں
بیزار اس قدر ہوں غم عاشقی سے میں
مجھ سے ذرا خفا ہے خوشی اور خوشی سے میں
نکلی ہوں جب سے ڈھونڈنے بے لوث چاہتیں
دھوکا ہی کھا رہی ہوں بڑی سادگی سے میں
معدوم اس کی آنکھ سے پہچان ہو گئی
جیسے کہ مل رہی تھی کسی اجنبی سے میں
جنس وفا جہان میں نایاب کیوں ہوئی
رو رو کے پوچھتی رہی ہر آدمی سے میں
اپنی خوشی سے ویسے بسر تو نہ کر سکی
ناراض بھی نہیں ہوں مگر زندگی سے میں
میں نے بھی صاف لفظوں میں غم سے یہ کہہ دیا
پیچھا چھڑا کے آئی ہوں افسردگی سے میں
مے خانہ چل کے رند کا خود پوچھتا ہے حال
مانوس اس طرح سے ہوں اب مے کشی سے میں
جام و سبو نہیں تری آنکھوں سے اب پلا
اے ساقی مر نہ جاؤں کہیں تشنگی سے میں