یوسف کی طرح کیوں کوئی بازار میں آئے

یوسف کی طرح کیوں کوئی بازار میں آئے
جو نرخ بھی اب طبع خریدار میں آئے


ملتی ہی نہیں قید تمنا سے رہائی
ہم کس قفس بے در و دیوار میں آئے


بن بن کے سوانح مری ہر واقعہ گزرا
سب لوگ سمٹ کر مرے کردار میں آئے


وہ عشق نہیں ہے کہ ہویدا ہو نظر سے
اخلاص کہاں معرض اظہار میں آئے


بندوں کے تصرف میں سہی رزق خدایا
آئے تو یہ ہم تک کسی مقدار میں آئے


نیلام کیا بھی تو قلم کے نہ اٹھے دام
اوصاف سب اس عہد کے تلوار میں آئے


پھرتا ہوں لئے جنس وفا شہر میں شوکتؔ
شاید نظر صاحب معیار میں آئے