کوئی ملنے کو نہ صورت جانی پہچانی بڑھی
کوئی ملنے کو نہ صورت جانی پہچانی بڑھی
شہر میں رونق ہوئی تو اور ویرانی بڑھی
عقل کی منطق سے بڑھ کر ہے جنوں نکتہ نواز
ہیں عیاں اسرار ہستی اب کہ حیرانی بڑھی
جس قدر بڑھتی گئی ہے عمر کم ہوتی گئی
جس قدر گھٹتی گئی ہے اور نادانی بڑھی
قابل ذکر اک یہی قصہ ہے آزادی کے بعد
اور پابندی ہوئی ہے اور نگرانی بڑھی
کیا ہوا کیوں سنگ در اپنی جگہ سے ہٹ گیا
اس پہ سجدے کے لیے جب میری پیشانی بڑھی
میرے بعد اب گرمئ محفل کے ہیں سب مدعی
بجھ گیا سورج تو پھر تاروں کی تابانی بڑھی
اک معمہ بن گئی شوکتؔ ہماری زندگی
بے سبب تسکیں ملی بے جا پریشانی بڑھی