دھڑکن سا کوئی دل میں سوا بول رہا ہے

دھڑکن سا کوئی دل میں سوا بول رہا ہے
اس ساز میں خود نغمہ سرا بول رہا ہے


کھلتا ہی نہیں تیرا طلسم لب و لہجہ
کیا جانیے خاموش ہے یا بول رہا ہے


ہر شخص نہیں دار کا شائستہ وگرنہ
ہر شخص کے پردے میں خدا بول رہا ہے


یہ لفظ کہ چڑھ کر ہوا تھا گنگ زباں پر
کاغذ پر اتارا ہے تو کیا بول رہا ہے


یہ وہ ہی پرندہ ہے کہ سادھے ہوئے چپ تھا
اس طرح جو اب ہو کے رہا بول رہا ہے


اک اور بھی شہ زور سے کل ہم نے سنا تھا
تو آج یہ جو بول بڑا بول رہا ہے


شوکتؔ ہے پیاپے جو رواں قافلہ دم کا
دل صورت آواز درا بول رہا ہے