پھول سے ڈھلکا ہوا اوس کا قطرہ ہوں میں

پھول سے ڈھلکا ہوا اوس کا قطرہ ہوں میں
شاخ سے ٹوٹ کے گرتا ہوا پتا ہوں میں


چھوڑ کے چل دیا ہے جیسے بدن ہی مجھ کو
جس کی پہچان نہیں کوئی وہ سایہ ہوں میں


جو کہ در آیا تھا روزن سے کرن کے ہم راہ
تیرے کمرے میں وہ بے فائدہ ذرہ ہوں میں


وادیٔ و کوہ و بیاباں سے گزر کر آخر
شہر میں آ کے جو کھو جائے وہ رستہ ہوں میں


اپنی آنکھوں سے نظر ہی نہیں آتا مجھ کو
اپنے چہرے کے لیے آپ ہی پردہ ہوں میں


بوجھ کے اور ادق ہو وہ معمہ ہوئی تو
کھل کے جو اور الجھ جائے وہ عقدہ ہوں میں


خود اجڑ کر کیا ہے میں نے کسی کو آباد
نقش میں ڈھل کے جو مٹ جائے وہ جذبہ ہوں میں


مدعا ہے کہ مکمل کروں تسلیم اسے
کل جو کہتا تھا تری ذات کا حصہ ہوں میں


شوکتؔ اس سینے میں محسوس نہیں اب وہ بھی
دل کے باعث کبھی دعویٰ تھا کہ زندہ ہوں میں