نہ ساتھ خوش تھا بچھڑ کے وہ کچھ اداس تو ہے
نہ ساتھ خوش تھا بچھڑ کے وہ کچھ اداس تو ہے
اس اعتبار سے درد فراق راس تو ہے
اثر پذیر بھی ہو گر نہیں ہے یہ مقدور
مری بساط میں اک عرض التماس تو ہے
یہ شہر چھوڑ کے جانے کو جی نہیں کرتا
وہ میرے پاس نہیں میرے آس پاس تو ہے
بظاہر اس کے تر و تازہ ہونٹ جو بھی کہیں
بجھا نہ پائے جو پانی انہیں وہ پیاس تو ہے
گیا زمانہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا
مگر وہ شخص زمانہ نہیں کچھ آس تو ہے
کسی سے طے نہ ہوا کیوں معاملہ دل کا
مزاج داں نہ سہی یہ ادا شناس تو ہے
بد احتیاط نہیں تیرے ذکر میں شوکتؔ
ترے بغیر اگرچہ یہ بد حواس تو ہے