یوں تو ان آنکھوں میں آتا ہے نظر دریا مجھے
یوں تو ان آنکھوں میں آتا ہے نظر دریا مجھے
پھر بھی اس کا قرب رکھتا ہے بہت پیاسا مجھے
زندگی بس یار کے غم پر نہیں ہے منحصر
رات دن بے چین رکھتا ہے غم دنیا مجھے
اب تو ان زخموں سے میری آشنائی ہو گئی
چارہ گر بہتر یہی ہے اب نہ کر اچھا مجھے
میں کہ جس کے واسطے برسوں رہا اک آب جو
جاتے جاتے کر گیا وہ ریت کا صحرا مجھے
وضع کیسی کیسی بدلوں تیری خاطر زندگی
چھوڑ رہنے دے ذرا جیسا بھی ہوں ویسا مجھے
جب سے وہ دل میں بسا ہے ذات میری انجمن
کیسے یہ کہہ دوں کیا ہے عشق نے رسوا مجھے
اس لئے مجھ سے گریزاں ہیں سہارے آج بھی
زندگی ہر موڑ تک لے کر گئی تنہا مجھے
نرم ہو مٹی تو شاید کھل اٹھیں چاہت کے پھول
میں کہ اک بادل ہوں اپنی ذات پر برسا مجھے
ہو کے خاورؔ بھی اسی کے لطف سے روشن ہوں میں
بے رخی اس کی بنا دے گی شب یلدا مجھے