بکھر نہ جا کہیں خود کو مری پناہ میں رکھ

بکھر نہ جا کہیں خود کو مری پناہ میں رکھ
ہیں تند و تیز جو دریا مری نگاہ میں رکھ


جھکے نہ سر یہ کسی آستاں پہ تیرے سوا
تو وہ غرور و انا اپنے کج کلاہ میں رکھ


یہ کب کہا کہ محبت سے باز رہ لیکن
پلٹ کے آ بھی سکے راستہ نگاہ میں رکھ


فریب نفس سے محفوظ تو ہو ذات مری
کہیں تو خوف کوئی لذت گناہ میں رکھ


رہے گا باز کہاں دل بھلا محبت سے
پر ایک حرف تسلی تو انتباہ میں رکھ


مقابلہ تو الگ بات ہے ہواؤں سے
جلا کے ایک دیا کوئی پہلے راہ میں رکھ


اسیر ہوں نہ کہیں دام حرص و دنیا کا
ہمارا شوق طلب اپنی بارگاہ میں رکھ


چھپے ہیں کرب ہزاروں اس اک تبسم میں
گلوں کی چاہ جو کر خار بھی نگاہ میں رکھ


ابھی خبر ہی کہاں تجھ کو سوز دل کیا ہے
تو قہقہوں کو ابھی روح کی کراہ میں رکھ


یہی اجالے کبھی چھین لیں گے بینائی
ذرا سا شوق اندھیروں کا بھی نگاہ میں رکھ