آنکھوں میں جو سمائے نہ منظر لپیٹ دے
آنکھوں میں جو سمائے نہ منظر لپیٹ دے
یا میری فکر میں کوئی محشر لپیٹ دے
ان کی نگاہ مست کا دل میں سرور ہے
ساقی سے کہہ دو بادہ و ساغر لپیٹ دے
دنیا کو یوں خبر تو ہو آلام زیست کی
کانٹوں کے ساتھ آج گل تر لپیٹ دے
ہوں محو خواب ان کے تصور کی گود میں
اے وقت اپنے درد کا بستر لپیٹ دے
ہوتا گماں ہے دیکھ کے بیتابیٔ نظر
قطرے میں جیسے کوئی سمندر لپیٹ دے
اب ہم کریں گے قوت بازو سے فیصلہ
منصف تو اپنے عدل کا دفتر لپیٹ دے
صحرا سے جب پلٹنے کا امکان ہی نہیں
ہنگام روزگار مرا گھر لپیٹ دے
آگاہ رہ یوں سرو و صنوبر نہ بن کے جی
ایسا نہ ہو کہ کوئی ترا سر لپیٹ دے
بار الٰہ کر دے عطا عزم حیدری
یا پھر سمجھ کے حرف مکرر لپیٹ دے
صیاد میں جو ہار گیا حوصلے کی جنگ
پھر خود کہوں گا تجھ سے مرے پر لپیٹ دے