نظر کے پاس رہ کر بھی پہنچ سے دور ہو جانا
نظر کے پاس رہ کر بھی پہنچ سے دور ہو جانا
محبت میں اسے کہتے ہیں ہم مجبور ہو جانا
خوشا اے دل مداوا ان کے زخموں کا نہیں ورنہ
کہاں ہر زخم کی قسمت میں ہے ناسور ہو جانا
بڑھانا اس طرح سے بے قراری اور بھی دل کی
جھلک عشاق کو دکھلا کے پھر مستور ہو جانا
محبت کا ہمارا دائرہ بس اتباع تک ہے
ہمیں زیبا نہیں ہے سرمد و منصور ہو جانا
نظر چھلکے نہ چھلکے منحصر ہے ظرف پر لیکن
ہے پہلی شرط دل کا درد سے معمور ہو جانا
نظر کو تاب نظارہ رہی ہے تیرے جلووں کی
کہ لازم تو نہیں ہر جلوہ گہ کا طور ہو جانا
تجھے پا لینے کا احساس اس کو کہتے ہیں شاید
ترے عارض کو چھو کر زلف کا مغرور ہو جانا
ہمیں کیا راس آئے بادہ و ساغر کہ اپنا تو
نگاہوں پہ ہے ان کی منحصر مخمور ہو جانا
لباس خاک ہی سے جب مری ساری فضیلت ہے
تو کیوں کر زیب ہے مجھ کو بھلا پھر نور ہو جانا