وجود گرچہ مرا خاک مختصر سے اٹھا

وجود گرچہ مرا خاک مختصر سے اٹھا
مہہ‌ و نجوم کا حلقہ مری شرر سے اٹھا


بدل گیا ہے مری کشت جاں خرابے میں
وہ حشر جو کہ تری چشم فتنہ گر سے اٹھا


جنون شوق تو ہر پل ہے گویا پا بہ رکاب
تکان کہتی ہے اب پاؤں کو سفر سے اٹھا


شراب وصل کی مدہوشی ہے رگ و پے میں
اسیر زلف کو اب حسن کے اثر سے اٹھا


نہ قطع کی ہے ضرورت نہ احتیاج قفس
یقین ہی جو پرندے کا بال و پر سے اٹھا


مہہ‌ و نجوم مرے بخت پر تھے رشک کناں
غبار بن کے میں جب تیری رہگزر سے اٹھا


سوال نذر کرم کیا کہ تیری دید کے بعد
میں بے مراد کہاں تیرے سنگ در سے اٹھا


لرز کے رہ گیا قاتل بھی چند ساعت کو
جب ارتعاش مرے جسم بے اثر سے اٹھا


تمام عمر رہی اس کی جستجو خاورؔ
جو درد بن کے کبھی دل کبھی جگر سے اٹھا