یوں ستم کی نہ انتہا کیجے

یوں ستم کی نہ انتہا کیجے
توبہ کیجے خدا خدا کیجے


پیار میں خم ہے یہ سر تسلیم
آپ اب جانیے کہ کیا کیجے


قرض کوئی بھی ہم نہیں رکھتے
آپ چاہت کی انتہا کیجے


توڑ کر شیشۂ یقیں میرا
لطف آزار کچھ سوا کیجے


خواہشیں دل میں جب سلگتی ہوں
کیسے جینے کا آسرا کیجے


جان لیجے کہ ساتھ ہے افروزؔ
آپ جب جب مجھے صدا کیجے