یہ خواب جس نے دکھائے تھے اک سفر کے مجھے

یہ خواب جس نے دکھائے تھے اک سفر کے مجھے
وہ اشک دے گیا آنکھوں میں عمر بھر کے مجھے


ہے فن میں یکتا وہ صیاد ہو کہ ہو دلبر
اڑان بھرنے کو کہتا ہے پر کتر کے مجھے


کٹھن تھا راستہ دشوار تھی ہر اک منزل
کوئی دکھائے اسی راہ سے گزر کے مجھے


میں اس کی خاص نظر سے تڑپ تڑپ اٹھوں
وہ اتنے پیار سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے


ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
ذرا سا دیکھ لے وہ بھی تو آنکھ بھر کے مجھے


مرے خیال کی الجھن کہاں سدھرتی ہے
گل بہار نے دیکھا ہے پھر سنور کے مجھے


سلگ رہی ہوں میں سانسوں کی تیز بھٹی میں
پلا رہا ہے وہ الفت کے جام بھر کے مجھے


وہ شہد گھول رہا ہے سماعتوں میں مری
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے


دھڑک رہا ہے محبت میں دل مرا افروزؔ
گزر رہی ہیں ہوائیں بھی پیار کر کے مجھے