یوں فرقتوں میں سلگتا ہے یاد کا موسم
یوں فرقتوں میں سلگتا ہے یاد کا موسم
کہ جیسے دشت جنوں جاگ اٹھا ہے یک دم
ہمیں خبر تھی کبھی کام آ ہی جائے گا
جلایا دل کو اگر شام ہو گئی مدھم
وہ دور ہے تو یوں ساکت ہوا چمن سارا
رخ گلاب پہ جیسے رکی ہوئی شبنم
جنوں میں مانگ لیا تھا کمال دل داری
سو اذن عشق ہے یہ فاصلہ رہے قائم
ہمارے سوز جنوں سے جو آنکھ نے دیکھا
ہمارے بیچ کا ہر فاصلہ ہوا مبہم
ہو جیسے پھول کوئی نالاں اپنی خوشبو سے
تمام عمر وہ مجھ سے یوں ہی رہا برہم
نہیں لکھیں گے کوئی بات آج نیلمؔ کی
غزل کے شعروں میں یہ مشورہ ہوا باہم