سخن میں جو روانی ہو گئی ہے
سخن میں جو روانی ہو گئی ہے
خدا کی مہربانی ہو گئی ہے
جو تیرے واسطے لکھی گئی تھی
وہی میری کہانی ہو گئی ہے
نیا الزام رکھ دو آدمی پر
یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے
ترا موسم جو آیا ہے نظر میں
غزل کتنی سہانی ہو گئی ہے
تری آنکھوں میں ڈھلتی مسکراہٹ
ہماری زندگانی ہو گئی ہے
کہاں کا دل کہاں کا ہے فسانہ
محبت آنی جانی ہو گئی ہے
نہیں لکھے گی نیلمؔ نام ان کا
وہ اب قدرے سیانی ہو گئی ہے