یوں دیکھنے میں تو بس خاک مختصر ہوں میں

یوں دیکھنے میں تو بس خاک مختصر ہوں میں
مجھے کرید کبھی خود میں بحر و بر ہوں میں


ازل سے تا بہ ابد پھیلی ہیں جڑیں میری
کبھی نہ آئی خزاں جس پہ وہ شجر ہوں میں


ہے بعد خلد بدر اک عذاب در بدری
جسے تلاش ہے منزل کی وہ خضر ہوں میں


کبھی نگاہوں میں ہوتا ہے عالم بالا
کبھی وجود سے ہی اپنے بے خبر ہوں میں


ہے ذات میری کبھی تو سبھی دکھوں کا علاج
کبھی لگے ہے کہ تریاق بے اثر ہوں میں


مرے وجود پہ ہے منحصر تری تعداد
اگرچہ تیری نظر میں بس اک صفر ہوں میں


سمجھ کے حرف مکرر جو لوح ہستی پر
زمانہ گرچہ ہے منکر مرا مگر ہوں میں


نہیں ہے بزم خرد میں جو میری قدر تو کیا
نگاہ اہل جنوں میں تو معتبر ہوں میں


مری زبان صداقت کا جرم ہے خاورؔ
زمانہ مجھ کو سمجھتا ہے خیرہ سر ہوں میں