یوں چاہتوں میں کوئی رنج آشنائی نہ دے
یوں چاہتوں میں کوئی رنج آشنائی نہ دے
کہ دل ہو راکھ مگر آگ بھی دکھائی نہ دے
اسیر دام محبت کہاں سے ہو آزاد
کہ ان کی زلف کی زنجیر جب رہائی نہ دے
کہاں سے سنتا صدا میری اس ہجوم میں وہ
پکارو خود کو تو آواز بھی سنائی نہ دے
ہجوم لفظ سے کیا چمکے سینۂ قرطاس
ترا خیال قلم کو جو روشنائی نہ دے
یہ کیسا خوف مسلط ہے ذہن و دل پر اب
پرندہ خود کہے صیاد سے رہائی نہ دے
وہ جن نگاہوں کو کل تیرگی کا شکوہ تھا
ہے آج روشنی اتنی کہ کچھ دکھائی نہ دے
عطا ہو در سے ترے عز و جاہ کی دولت
نگاہ خلق میں کر دے بڑا بڑائی نہ دے