یوں آ کے شام درد برنگ سحر گئی

یوں آ کے شام درد برنگ سحر گئی
چہرے سے میرے دھوپ غموں کی اتر گئی


سائل کی طرح لوگ صفوں میں کھڑے ملے
جس رہ گزار زیست پہ میری نظر گئی


ہم رہروان شوق کی قسمت نہ پوچھئے
منزل جسے بھی سمجھا وہ منزل گزر گئی


وہ جان آرزو کہ جو تھی شمع انجمن
دل ڈھونڈھتا ہے اس کو نہ جانے کدھر گئی


اک شکل دل ربا جسے دیکھا تھا خواب میں
تصویر کی طرح مرے دل میں اتر گئی


جس بزم دوستاں میں سناتے تھے ہم غزل
افسوس صد افسوس وہ محفل بکھر گئی


اب کے بہار آئی ہے مانند آئنہ
دیکھا کمالؔ میں نے تو صورت نکھر گئی