بے غرض تجھ سے جو ملتا ہوگا
بے غرض تجھ سے جو ملتا ہوگا
اس کا دل پیار کا دریا ہوگا
شک جو احباب پہ کرتا ہوگا
اس کو اپنے پہ بھی دھوکا ہوگا
صاف ابھر آئے خد و خال اس کے
چہرہ آئینے میں دیکھا ہوگا
دے دیا وقت پہ دھوکا اس نے
جس کو سمجھا تھا کہ اپنا ہوگا
وہ جو خاموش ہے مغموم بھی ہے
اس نے ہر بات پہ سوچا ہوگا
آج ہم آپ سلامت ہیں تو بس
کس کو معلوم کہ کل کیا ہوگا
کیا کمالؔ اس کی خبر ہے تجھ کو
کل کتابوں میں تو بکھرا ہوگا