ہر آدمی نے تہ دل سے دی دعا تجھ کو
ہر آدمی نے تہ دل سے دی دعا تجھ کو
تمام شہر سے پھر بھی رہا گلہ تجھ کو
بری لگے تو لگے اس میں کیا خطا میری
جو بات کہنی تھی کہہ دی وہ برملا تجھ کو
نہ جانے کون سی اس میں تھی مصلحت پنہاں
کہ سچ بھی کہنے سے آنے لگی حیا تجھ کو
ابھی تو ظلم کو اک فن سمجھ رہا ہے مگر
کبھی تو ظلم کی دے گا خدا سزا تجھ کو
تو بند رہتا ہے دن رات اپنے کمرے میں
تو راس آئے گی کیا شہر کی فضا تجھ کو
تو کور ذوق ہے کوئی پیام لے نہ سکا
پکارتی رہی گلشن میں یوں صبا تجھ کو
کمالؔ پر تو ستم ڈھا رہا ہے برسوں سے
مگر وہ آج بھی کہتا ہے با وفا تجھ کو