تجھے رہے نہ رہے ربط باہمی کا خیال
تجھے رہے نہ رہے ربط باہمی کا خیال
مگر مجھے تو ہے آداب دوستی کا خیال
تڑپ رہا تھا تری بزم ناز میں لیکن
کسی نے بھی نہ کیا میری بے بسی کا خیال
پہنچ سکے گا وہ کس طرح اپنی منزل تک
جسے ذرا بھی نہ ہو اپنی کجروی کا خیال
مجھے یقین ہے پا لے گا منزلوں کے نشاں
وہ کارواں کہ نہ ہو جس کو گمرہی کا خیال
ملو تو دوست بنو ورنہ سازشیں ہی کرو
کہ دوستی میں نہ شامل ہو دشمنی کا خیال
رہ حیات میں ہم تو ابھی ہیں نو آموز
خدا کرے کہ نہ پیدا ہو رہبری کا خیال
کمالؔ جیسے جہاں ہوں گے چند اہل جنوں
نہ کر سکے گا وہاں کوئی خود سری کا خیال