مسکرانے کی ادا مجھ کو سکھاتی ہے غزل
مسکرانے کی ادا مجھ کو سکھاتی ہے غزل
کوئی مشکل ہو مرا ساتھ نبھاتی ہے غزل
داستاں حسن و محبت کی سناتی ہے غزل
ہم نوا اپنا زمانے کو بناتی ہے غزل
نیند اڑ جاتی ہے راتوں کو جو آنکھوں سے کبھی
اپنی آغوش محبت میں سلاتی ہے غزل
غم سے آزاد بشر ہوتا ہے سنتے ہی اسے
اہل محفل پہ اثر ایسا جماتی ہے غزل
کیسے کہہ دوں کہ ہے محدود غزل کی دنیا
شان اردو کی زمانے میں بڑھاتی ہے غزل
پھیلتا ہے رہ ہستی میں اندھیرا تو کمالؔ
فکر و احساس کی اک شمع جلاتی ہے غزل