یمن کی خانہ جنگی صرف مذاکرات سے رک سکتی ہے

گزشتہ جمعہ یمن میں حوثی باغیوں  کی مرکزی   جگہ صادا  پر فضائی  حملہ ہواجس میں حد تک اموات ہوئیں۔  اس سانحے نے ایک دفعہ پھر اس بے کار جنگ کی ہولناکیوں کو عیاں کر دیا۔  ممکنہ طور پر یہ فضائی  حملہ  سعودی اتحادی افواج نے کیا، لیکن بعد ازاں  سعودی اتحاد نے یمن میں اس حملے  سے انکار کیا جس کی وجہ سے ستر افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور اس سے کہیں زیادہ بری طرح زخمی  ہیں۔  اگر سعودی اتحاد اس میں ملوث نہیں  ہے  تو پھر یہ واضح نہیں کہ کس کے پاس اس قدر شدید حملے کی استطاعت موجود ہے۔اس سے قبل    سعودی اتحاد نے ٹیلی کمیونیکیشن تنصیبات پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس سے یمن میں انٹرنیٹ کی سہولیات شدید متاثر ہوئیں۔  اس حملے کے بعد متحدہ عرب عمارات میں حملہ دیکھنے کو ملا تھا جس میں تین افراد مارے گئے تھے۔ ان تین آدمیوں میں ایک پاکستانی بھی تھا۔ 

               یہ ٹھیک ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی متحدہ عرب عمارات کو خارجی جارحیت کی مدافعت کا پورا پورا حق ہے، لیکن اس بڑے پیمانے پر نہتے لوگوں پر  حملے  کا کسی طرح بھی دفاع نہیں کیا جا سکتا۔  اسی لیے ایک بڑے پیمانے پر اس  نسل کشی کی مذمت   کی گئی  اس مذمت   میں آگے آگے اقوام متحدہ کے سکیورٹی جرنل انٹونیو گٹیرز تھے جنہوں نے دونوں اطراف کی پارٹیوں کو  ذمہ دار رویے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ عام شہری ہر حالت میں محفوظ رہنے  چاہییں۔  اس پر وہ امریکہ جو   سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے، بھی بول اٹھا کہ جارحیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ 

               بدقسمتی سے یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ جب اتحادی  افواج  ایسے شہریوں  پر حملہ کر رہی ہیں جو جنگ میں شریک ہی نہیں۔  اس سے پہلے بھی بازاروں سکولوں، اور شادیوں  پر حملے ہوتے رہے ہیں جن میں بڑے پیمانے پر اموات بھی ہوتی رہی ہیں۔  پریشان کن حقیقت تو یہ ہے کہ یمن کے عام شہری   بیرونی جارحیت سے کچلے گئے ہیں، بھوکے مر رہے ہیں اور  اس بیماری کے دنوں میں بے یار و مددگار پڑے ہیں۔  اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ میں تین لاکھ ستتر ہزار افراد مارے گئے ہیں جن میں ستر فیصد بچے ہیں۔   ان دلخراش حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ جنگ جتنی جلدی ختم ہو جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

               حالیہ تنازعات  کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ  گوریلاگروہ جو متنوع جنگی حکمت عملیوں سے لڑ رہے ہوں، اپنے سے کئی مضبوط مخالف کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔  یمن میں حوثی باغیوں نے عرب اتحاد کے ساتھ بالکل یہی کیا ہے، جس کی پشت پناہی پر انتہائی جدید مغربی اسلحہ بھی موجود ہے۔  اس لیے یہاں ضروری صرف یہ ہے کہ مذاکرات کر کے جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔  فوری  طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے  اور یمنی حکومت، حوثی باغیوں، دیگر جنوبی  عناصر اور دوسرے    فریق آپس میں پاور شئیرنگ گا معاہدہ کریں۔ ان گروہوں کے پشت پناہ ممالک جیسا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب عمارات اور ایران کو چاہیے کہ  امن کی کاوشوں  کا ساتھ دیں۔  اس کے بعد ایک جمہوری روڈ میپ تشکیل دینا چاہیے جس میں تمام یمنیوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ اس روڈ میپ میں یمن کے معاشرے کی قبائلی پیچیدگیوں اوریمن کی جغرافیائی و علاقائی سالمیت کو بھی ضرور  مدنظر رکھنا چاہیے۔   حوثیوں کے مزید  سعودیہ عرب اور متحدہ عرب عمارات پر حملے اور ان کے سخت جواب  جن میں عام شہری بڑی تعداد میں مارے جائیں بالکل بھی قابل قبول نہیں۔   کیونکہ اس سے صرف  عرب کے خطے  میں تشدد میں اضافہ ہوگا اور کچھ نہیں۔

متعلقہ عنوانات