کیا ایران پر سے امریکی پابندیاں واقعی ہٹنے جا رہی ہیں؟

یہ مجھے آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایران پر اس وقت 2018 سے سخت امریکی پابندیاں ہیں۔  لیکن اب ان پابندیوں کے ہٹنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔ آسٹریا کے شہر ویانا میں ایران اور عالمی طاقتوں جن میں برطانیہ، فرانس، روس، چین اور امریکہ شامل ہیں، کے  مابین سولہ ماہ سے جاری کئی مذاکرات کے ادوار کے بعد    معاہدے کا  مسودہ تیار ہو چکا ہے۔ اس مسودے پر دونوں اصل پارٹیاں یعنی ایران اور امریکہ اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں، جس سے امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ 2015 میں  ہونے والا جے سی پی او اے معاہدہ دوبارہ سے لاگو ہو جائے گا۔

یہ معاہدہ 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرفہ توڑ دیا تھا۔ اس معاہدے کے لاگو ہوتے ہی ایران پر سے امریکی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی اور وہ عالمی  دنیا میں کھل کر تجارت کر پائے گا۔ ویانا میں ایرانی مذاکراتی ٹیم سے مسودہ طے کرنے کے بعد یورپی یونین نے آٹھ اگست کو امریکہ کو بھجوا دیا تھا، جو کہ بذریعہ یورپی یونین ایران سے مذاکرات کر رہا  ہے۔ اب گیند امریکی کورٹ میں ہے۔ مذاکرات میں شامل سفارتکار مثبت نتائج کی امید ظاہر کر رہے ہیں، جس سے لگتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس معاہدے پر مثبت جواب دے دے گی۔ روس پر لگی پابندیوں کے باعث تیل کی کمی بھی بائیڈن کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ  ایران پر سے پابندیاں ہٹا دیں۔ لیکن خدشات ابھی بھی ہیں کیونکہ اسرائیل بظاہر اس کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔      

ایران پر پابندیاں کیوں لگتی ہیں؟

اس  سوال کا جواب تو آپ کو اسی وقت مل جاتا ہے جب آپ امریکی پابندیوں والے ممالک کی فہرست دیکھتے ہیں۔ ان میں روس، شمالی کوریا، کیوبا، شام، ایران سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ یہ تمام وہ ممالک ہیں جو امریکی بالادستی کے آگے پس و پیش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  

اگر صرف ایران پر پابندیوں کی کہانی کو دیکھا جائے تو اس کے تانے بانے 1979 میں ایران میں انقلاب سے ملتے ہیں، جس کے بعد آیت اللہ خمینی کی سربراہی میں ایران میں حکومت تشکیل پائی تھی جو مغرب خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس سے پہلے شاہ ایران کی حکومت تو امریکی  اتحادی تھی۔ لیکن جب سے خمینی کی قیادت میں دائیں بازو کی حکومت آئی ہے تب سے پابندیوں کی کہانی جاری ہے۔

 2015 میں ایک  بڑی پیش رفت ہوئی تھی۔  یہ جے سی پی او اے نامی معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ امریکہ، یورپی طاقتوں، روس، چین اور ایران کے درمیان ہوا تھا جس میں طے پایا کہ ایران ایٹمی طاقت بننے کی کاوشیں نہیں کرے گا، جس کے بدلے ایران پر لگی اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکی پابندیاں ہٹا لی جائیں گی۔ یہ معاہدہ امریکہ کی ڈیموکریٹک حکومت کے دور میں ہوا تھا، جب باراک اوباما صدر اور بائیڈن  نائب صدر تھے۔ اس وقت بھی نہ صرف اسرائیل بلکہ بدقسمتی سے سعودی عرب   کی قیادت میں عرب ممالک بھی اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ لیکن امریکہ اور اس کے یورپی یونین اتحادی چاہتے تھے کہ یہ معاہدہ ہو جائے۔ یورپی یونین شاید اس لیے کہ فرانس کی ٹوٹل انرجیز جیسی بڑی بڑی  کمپنیاں ایران سے ہی تیل خرید کر  دنیا کو بیچ رہی تھیں۔اس کے علاوہ بھی یورپی طاقتوں کے ایران کے ساتھ دیگر شعبہ جات میں تعاون جاری تھے۔ آج بھی یورپی یونین کی آفیشل ویب سائٹ پر ان کے ایران سے تعلقات دیکھے جائیں تو وہ بہت مثبت انداز میں ایران سے  یورپی یونین کے تعلقات بتائیں گی۔

جے سی پی او اے معاہدے کا ٹوٹنا:

2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ری پبلکنز کی  امریکہ  میں حکومت آئی تو اس نے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی بڑی تبدیلیاں کرنا شروع کر دیں۔ اس میں سے ایک بڑی تبدیلی جے سی پی او اے معاہدے سے دیگر فریقین کو بنا اعتماد میں لیے نکل جانا تھا۔ ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر معاہدے سے نکل جانے کے بعد ثابت کیا کہ امریکہ کس قدر غیر متوقع ہے۔

 امریکہ تو اس معاہدے سے نکلا تھا لیکن  برطانیہ، فرانس، چین اور روس اس معاہدے میں ایران کے ساتھ رہے تھے۔ لیکن امریکہ کی پابندیاں ایران کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر چکی تھیں۔ ایران اب امریکی اتحادی یورپی ممالک پر دباؤ ڈالنے لگا کہ وہ امریکہ کو معاہدے میں واپس لائیں اور ان پر سے پابندیاں ہٹوائیں۔ نہیں تو وہ بھی معاہدے سے نکل کر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شروع کر دے گا۔ جنوری 2020 کے آتے آتے ایران  بھی اس معاہدے سے نکل گیا اور اپنے ہتھیاروں کے لیے یورینیم افزودہ کرنے لگا۔ پھر اس کے متعدد ایٹمی پلانٹوں پر مبینہ اسرائیلی حملے بھی ہوئے اور ان کے نیوکلیر سائنسدان  محسن فرخ زاد بھی مارے گئے۔ تاہم نیوکلیر ہتھیاروں کی  روک تھام کے لیے کام کرتی تنظیم انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی  اپنے خدشات کا اظہار کرتی رہی۔ اس  کو ایٹمی ہتھیاروں میں درکار  یورینیم کے ذرات ملے جس کی چھان بین اب تک وہ کر رہی ہے۔ ایران اس چھان بین کو بند کروانا چاہتا ہے اور مبینہ طور پر اس نے اب کے معاہدے میں وہ شقیں ڈلوائی ہیں جس کے تحت یہ چھان بین بند ہو۔

جے سی پی او اے کی بحالی اور مذاکرات:

بائیڈن نے برسراقتدار  آتے ہی اپریل 2021 میں جے سی پی او اے کی بحالی کا ڈول ڈال دیا۔ لیکن امریکہ نے ایران سے براہ راست مذاکرات نہیں کیے بلکہ  بلاواسطہ ان میں شریک رہا۔ مذاکرات کے ہر دور کے بعد یوپری یونین پیش رفت کی تفاصیل امریکہ کو بھجواتا اور جو ہدایات وہاں سے آتیں اس کے مطابق پھر ایران سے بات کی جاتی۔ مذاکرات کے آٹھ ادوار کے بعد اب ایسا مسودہ طے پایا ہے جس پر امریکہ اور ایران دونوں مثبت پیش رفت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایران اب کی بار ایسی گارنٹیاں مانگ رہا تھا کہ امریکہ پھر معاہدے سے یک طرفہ نہ نکل پائے۔ مزید مبینہ طور پر اس نے اس دفعہ  ایک اضافی شرط  بھی رکھی تھی۔ وہ تھی اپنے پاسداران انقلاب کی افواج کو امریکہ کی طرف سے جاری دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کی۔ پاسداران انقلاب ایران کی وہی افواج ہیں جو  ایران سے باہر ایرانی مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ قاسم سلیمانی اسی کے سربراہ تھے جو 2020 کے  شروع میں  امریکی ڈران حملے میں مارے گئے۔ لیکن ایرانی سفارت کار   ایسے کسی مطالبے سے انکار کر رہے ہیں۔ تاہم امریکیوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ایران نے اپنے اس مطالبے پر لچک دکھائی ہے تو ہم اس ڈیل کو حتمی شکل دینے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن ایران کہتا ہے ہم تو آج بھی ان تمام مطالبات پر قائم ہیں جو پہلے روز ہم نے مذاکراتی میز پر رکھے تھے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں طاقتیں دنیا کو صرف یہ دکھانا چاہ رہی ہیں کہ ان کا ہاتھ مذاکرات میں اوپر ہے اور کچھ نہیں۔ باقی دونوں طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہ معاہدہ ہو جائے۔ دونوں کی اس کے پیچھے اپنی اپنی مجبوریاں ہیں۔

اسرائیلی و عرب مخالفت:

یہ انتہائی عجیب بات محسوس ہوتی ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ دونوں معاہدے میں آگے بڑھ رہے ہیں جب اسرائیل سر عام اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس  معاہدے کے بعد ایران سو ارب ڈالر کا فائدہ سالانہ اٹھا پائے گا، جس سے وہ حماس، حزب اللہ اور اسلامک جہاد جیسی تنظیموں کو فنڈ کرے گا۔ مزید اس نے تو معاہدہ کروانے   والے فریقین کو سخت نتائج کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ بدھ کے روز ایک اہم اسرائیلی سفارت کار امریکہ گئے ہیں ، جس کے بارے میں اخبارات لکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کی آخری کاوش ہے معاہدے کو روکنے کے لیے۔

دوسری طرف سعودی عرب کے شیخ بھی منہ پھلا کر بیٹھے ہیں۔ آپ نے کچھ روز پہلے خبریں پڑھی ہونگی کہ بائیڈن سعودی عرب گئے لیکن انہیں اس طرح خوش آمدید نہیں کہا گیا جیسا کہ امریکی صدور کو کہا جایا کرتا تھا۔  عرب ممالک کو بھی خطرہ ہے کہ ایران پر سے پابندیاں ہٹیں تو اس کے پاس پیسے آئیں گے۔ وہ اپنی مشرق وسطیٰ میں پھیلی پراکسیوں کو مزید فنڈ کر کے عرب مفادات کا جنازہ نکال دے گا۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب پر یمنی حوثی باغیوں کے  ذرعے میزائل وغیرہ پھینکوا کر ایران ٹریلر دکھاتا بھی رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک آدھ حملہ متحدہ عرب امارات پر بھی ہوچکا ہے۔ عرب اس وجہ سے اس معاہدے کی بحالی سے سیخ پا ہیں۔ دیکھنا اب یہ ہے آنے  والے دن کیا مناظر دکھاتے ہیں۔

متعلقہ عنوانات