یہ عمر ہجر اگر صرف انتظار نہ ہو

یہ عمر ہجر اگر صرف انتظار نہ ہو
تو واقعی مجھے ہستی پہ اعتبار نہ ہو


مجھے نہیں ہے اگر ان پہ اختیار نہ ہو
انہیں بھی یہ دل بیتاب سازگار نہ ہو


وہاں وہ خوش کہ مجھے ان سے کچھ گلہ ہی نہیں
یہاں یہ پاس کہیں راز آشکار نہ ہو


رہا سہا بھی دل زار کا قرار گیا
وہ بار بار یہ کہتے ہیں بے قرار نہ ہو


ہر ایک دامن گل پر فلک کے آنسو ہیں
خزاں کی موت سے یوں زینت بہار نہ ہو


جفا ہوئی نہ وفا اب وہ سیکھتے ہیں حیا
خدا کرے یہ ارادہ بھی استوار نہ ہو


نہ گائیں عشق کے نغمے جو بلبلیں طالبؔ
چمن میں گل نہ کھلیں موسم بہار نہ ہو