تقدیر کے آگے کبھی تدبیر کسی کی

تقدیر کے آگے کبھی تدبیر کسی کی
چلتی ہو تو سمجھے کوئی تقصیر کسی کی


اب ایک تمنا ہو تو پوری کوئی کر دے
یوں کون بدل سکتا ہے تقدیر کسی کی


دل میں اتر آئی ہے نگاہوں سے سمٹ کر
کس درجہ حیا کوش ہے تصویر کسی کی


وہ آئیں نہ آئیں مجھے نیند آ نہیں سکتی
سنتا ہی نہیں نالۂ شبگیر کسی کی


برسات کا اک خواب ہے مستقبل تاریک
بکھری ہوئی سی زلف گرہ گیر کسی کی


اللہ یہ تاریک فضائیں یہ گھٹائیں
یہ برق خیالات میں تصویر کسی کی


آنکھیں مری آنکھیں ہیں زہے جوشش گریہ
دھل دھل کے نکھر آئی ہے تصویر کسی کی


طالبؔ ترے جذبات کی تشریح تو کر دوں
ڈر ہے کبھی ہو جائے نہ تشہیر کسی کی