محبت آگ بن جاتی ہے سینہ میں نہاں ہو کر
محبت آگ بن جاتی ہے سینہ میں نہاں ہو کر
تمنائیں جلا دیتی ہیں دل چنگاریاں ہو کر
ادھر بھی تم ادھر بھی تم یہاں بھی تم وہاں بھی تم
یہ تم نے کیا قیامت کی نگاہوں سے نہاں ہو کر
سمجھتے ہیں جسے منزل فریب راہ منزل ہے
مگر چپ ہوں یہ مجبوری شریک کارواں ہو کر
انہیں بھی داستان ہجر چپکے سے سنا ہی دی
سکون شام غم بن کر ستاروں کی زباں ہو کر
سحر ہونی سے پہلے ہی گلابی ہو گئے آنسو
شفق پھولی ہماری داستان خوں چکاں ہو کر
انہیں نیند آ رہی ہے یا مری تقدیر سوتی ہے
تھپکتے ہیں کسی نالے شب غم لوریاں ہو کر
نقوش آرزو مٹ مٹ کے ابھرے خون ہونے کو
بساط کہکشاں بن کر شفق کی سرخیاں ہو کر
چراغ آرزو یوں جھلملا کر بجھ گیا آخر
دم آخر کسی کی یاد آئی ہچکیاں ہو کر
خصوصیت کا طالبؔ ہوں عداوت ہو محبت ہو
مجھی کو بس ستائے جائیے نا مہرباں ہو کر