مٹ نہیں سکتا قیامت تک نشان آرزو

مٹ نہیں سکتا قیامت تک نشان آرزو
حسن جسم آرزو ہے عشق جان آرزو


وہ سنیں سینہ سے لگ کر داستان آرزو
دل کی ہر آواز ہوتی ہے زبان آرزو


بے خودی کی منزلوں میں صرف حیرت ہو گیا
دل کہ لے دے کر بچا تھا اک نشان آرزو


بے قراری بے خودی بے چارگی دیوانگی
ہیں یہ عنوانات زیب داستان آرزو


ہو چکی روز ازل وابستگی حسن و عشق
ایک جان آرزو ہے اک جہان آرزو


ان کی دزدیدہ نگاہوں میں یہ کیا اعجاز تھا
جی اٹھے ایکبارگی سب کشتگان آرزو


ہو چلے ان کے لب نازک تبسم آشنا
برق سے کب تک بچے گا آشیان آرزو


زندگی میرے لئے طالبؔ سزائے عشق ہے
میری ہستی ہے مجسم داستان آرزو