سرد نہ کر مذاق عشق بیخودئ نماز میں

سرد نہ کر مذاق عشق بیخودئ نماز میں
آنکھ کو دوربیں بنا جلوہ گہہ مجاز میں


راز نظام کائنات ان کی نگاہ ناز میں
اصلیت خدا نہاں میری خودی کی راز میں


پھر تجھے ڈھونڈھ لے گی خود ظرف شناس برق طور
شوق کلیم شرط ہے عشق کے سوز و ساز میں


یا تو خودی کو بھول جا یا پھر اسی کو بھول جا
حس مغائرت نہ رکھ بارگہہ نیاز میں


خرمن کائنات کو پھونک نہ دے یہی شرار
سوز ہی سوز ہی فقط میری خودی کی ساز میں


قوت ضبط والسلام طاقت صبر الوداع
پھر وہی ارتعاش ہے ان کی نگاہ ناز میں


مجھ کو نہ آزمائیے حشر بپا نہ کیجیے
شور نشور ہے نہاں نالۂ جاں گداز میں


طور کو خاک کر گیا شمس کا خوں بہا گیا
لاکھ چھپا نہ چھپ سکا حسن حریم ناز میں


طالب غم نصیب کا حسن طلب تو دیکھیے
آرزوئے فراق ہے دور وفائے ناز میں