یہ سر زمین وطن
یہ سر زمین وطن یہ دیار اہل نظر
یہ سر زمین وطن جلوہ گاہ ذات و صفات
یہ سر زمین وطن آبروئے عالم خاک
یہ سر زمین وطن گلشن بہار حیات
یہ سر زمین وطن یہ دیار اہل نظر
جبیں پہ جس کی روایات کی ہے تابانی
رگوں میں جس کی رواں ہے لہو شہیدوں کا
کہ جس پہ کرتے ہیں شمس و قمر گل افشانی
یہ سر زمین کتاب حیات جس کو کہیں
کتاب ہی نہیں تاریخ ہے معیشت کی
اشوک و اکبر و چشتی و نانک و گاندھی
ہر اک ورق ہے نئی داستاں محبت کی
زباں پہ بارے خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ بوسے نطق نے بڑھ کر مری زباں کے لئے
جدید ہند کی قسمت بنائی گاندھی نے
نوید امن وہ لایا تھا کل جہاں کے لیے
سوال نسل کے ہوں یا زبان و مذہب کے
سوال صنعت و حرفت کے یا معیشت کے
ہر اک سوال کا پر امن حل تلاش کیا
سوال گھر کے ہوں یا عالمی سیاست کے
اسی کے نقش قدم ہیں کہ جن پہ چل کر ہم
نئی بہار کی منزل تلاش کرتے ہیں
اسی کا فیض نظر ہے کہ جس کے بل پر ہم
سکون زیست کا ساحل تلاش کرتے ہیں
یہ سر زمین ابھی اور بھی حسیں ہوگی
سجا رہے ہیں اسے زندگی کے دیوانے
یہ سر زمین وطن یہ دیار اہل نظر
لکھیں گے اہل جنوں اس کے کتنے افسانے